حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ سے گفتگو کے دوران حجت الاسلام حسن آقا خرمی آرانی نے میلاد حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی آمد اور ان کے تاریخی و اعتقادی مقام کو ذکر کرتے ہوئے کہا: علامہ امینی کی عظیم کثیر المجلد کتاب "الغدیر" ایک علمی اور پائیدار یادگار ہے جو حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی مظلومیت کے دفاع اور ان کی بلافصل خلافت کو ثابت کرنے کے لیے تحریر کی گئی ہے اور اہم نکتہ یہ ہے کہ اس کتاب کے تمام مصادر اور حوالے اہل سنت علما کی کتب سے منتخب کیے گئے ہیں۔
حوزہ علمیہ کے اس استاد نے علامہ امینی کی تحقیقی کاوشوں کے بے مثال پہلوؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: مرحوم علامہ امینی نے اس عظیم تصنیف کی تدوین کے لیے روزانہ تقریباً 17 گھنٹے مطالعہ اور تحقیق میں گزارے اور اس راستے میں انہوں نے تقریباً 10 ہزار جلد کتابیں شروع سے آخر تک پڑھیں اور ایک لاکھ سے زائد کتابوں سے بار بار رجوع کیا۔ اس کتاب کے عمیق اثرات کا یہ عالم ہے کہ مشہور ہے لبنان میں صرف ایک جلد کی اشاعت کے بعد، اہل سنت کے کئی برادران اس کتاب کے مدلل اور مستند مواد سے متاثر ہو کر مذهب حق شیعہ میں داخل ہو گئے۔
حجت الاسلام خرمی آرانی نے اس کتاب کی ساخت اور حجم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: بے مثال کتاب "الغدیر" اپنے اصل منصوبے میں 20 جلدی ہے۔ جس میں سے اب تک 11 جلدیں شائع ہو چکی ہیں اور باقی 9 جلدیں ابھی تک طبع نہیں ہوئی ہیں۔ خود علامہ امینی نے بھی تاکید کی تھی کہ اصل اور بنیادی مطالب انہی 9 جلدوں میں ہیں اور موجودہ 11 جلدیں ان گہرے مباحث کے لیے تمہید کے حکم میں ہیں اور ان کا عقیدہ تھا کہ اگر یہ مجموعہ مکمل طور پر شائع ہو جائے تو عالم اسلام پر گہرا اثر ہوگا۔
انہوں نے کتاب الغدیر کی علمی مضبوطی اور استحکام پر زور دیتے ہوئے کہا: اگرچہ اس کتاب کے مطالب کچھ حلقوں کے لیے خوشگوار نہ ہوں، لیکن معتبر اور مستند مصادر سے استناد کی وجہ سے، تقریباً ساٹھ سال کی اشاعت کے دوران، کسی فرد یا گروہ نے اس کے ایک صفحے کو بھی علمی طور پر تنقید یا رد نہیں کیا ہے۔ اس تصنیف کی شیعہ علما کے علاوہ بہت سے اہل سنت کے بزرگان، فقہاء، محدثین اور یہاں تک کہ سیاسی شخصیات کی طرف سے بھی توجہ اور تحسین کی گئی ہے اور اس پر متعدد تقریظیں لکھی گئی ہیں۔
حوزہ علمیہ کے استاد نے کہا: علامہ امینی نے الغدیر کی تحریر کے ذریعے حدیث غدیر اور حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت کے مقابلے میں ہر قسم کے انکار یا تاویل کا راستہ مسدود کر دیا ہے اور سب پر حجت تمام کر دی ہے۔ انہوں نے اس کتاب میں حدیث غدیر کو پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے 110 صحابہ، 84 تابعین اور اہل سنت کی کتب کے 360 راویوں سے دوسری صدی ہجری سے چودہویں صدی ہجری کے زمانے تک نکال کر پیش کیا ہے، اس مقدار میں اسناد، حدیث غدیر کی تواتر کو واضح طور پر ثابت کرتی ہیں۔
حجت الاسلام خرمی آرانی نے مزید کہا: علامہ امینی نے تاکید کی تھی کہ قیامت کے دن وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے دشمنوں سے بحث و مباحثہ کریں گے کیونکہ انہوں نے ان کا وقت لیا تھا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اپنی کوششوں کو محض امامت ثابت کرنے کے بجائے معارف علوی کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کرتے۔
بے شک علامہ امینی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے تاریخ کو مسخ کرنے والوں کے سامنے تنہا کھڑے ہو کر، ایک توانا، منطقی اور آتشیں قلم سے تاریک تاریخ کی تہوں میں چھپے حقائق کو آشکار کیا اور حضرت علی علیہ السلام کی بلافصل خلافت کو دنیا کے لیے ثابت کر دکھایا۔
انہوں نے حدیث غدیر "مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا عَلِیٌّ مَوْلَاهُ" کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جانشینی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تبیین میں اس واقعہ کے مرکزی کردار پر بھی تاکید کی۔









آپ کا تبصرہ